تاریخ انسانیت کے عظیم استاد،انسانی حقوق کے عظیم محافظ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم

Spread the love

مظہر سبحانی: متعلم مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد

5 ستمبرکی تاریخ اہلیان ہند میں بے پناہ مقبولیت اور اہمیت کا حامل ہے۔کیوں کہ آج ہی کے دن کو اکابریں ہند نے یوم اساتذہ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔اساتذہ کیاہیں؟ استاد اس روشن چراغ کا نام ہے جو تشنگان علوم کی نہ صرف تشنگی بجھاتا ہے بلکہ انہیں زیور علم سے آراستہ بھی کرتا ہے،جہالت اور ظلمت کے غار سے نکال کر علم اور نور کے اوج ثریہ پر پہنچاتا دیتا ہے،طلبہ کے اندر حق و باطل کے درمیان فرق کی تمیز پیدا کرتا ہے،فکر کو تقویت بخشتا ہے،اذاہان کو وسیع کرتا ہے،قلب کو منور کرتا ہے، زباں کوفصیح کرتا ہے،کلام کو صاف کرتا ہے،دنیا ایسے لا تعداد افراد سے بھری ہوئ ہے جنہوں نے اپنی زندگی میں اساتذہ کا پیشہ اختیار کیا اور نسلوں کو سنوارنے کا کام کیا ، فکر کو بالیدگی بخشی ہے اور انسانی اقدار کا قد بلند کیا ہے۔لیکن اسی زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے ایک ایسی ذات بھی موجود ہے جو فضائل و کمالات کا مظہر اتم ہے،استاد ایسا جس کو قرآن نے امی کہہ کر مخاطب کیا ہو وہ کوئ اورنہیں بلکہ عربستاں کی بیوہ کے گود سے اٹھنے والا وہ در یتیم ہے جس نے دنیاء انسانیت میں ایک نئی روح پھوں دی ہے،ایک ایسا معلم کائنات ہے جس کے دین کی بنیاد ہی "اقر ” پر رکھی گئی ہے،وہ کوئ اور نہیں بلکہ وجہ تخلیق کائنات ،مصطفیٰ جان رحمتﷺ کی ذات با برکات ہے، ایک ایسا عظیم نبی جس نے دنیا کو یہ بتایا کی پڑھو بھلے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانے پڑھے، ارکان اسلام کے فرائض کے ساتھ ساتھ یہ حکم دیا گیا اور فرمایا گیا کہ ” علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے” اور ایک جگہ فرمایا گیا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔خالق بر حق کا وہ نبی اعظم چاہتا تو لوگوں کو صرف اسلام کی دعوت دے کر اپنی زمہ داریوں سے پلہ جھاڑ لیتا لیکن نہیں ! اس نبی برحق نے لوگوں کے ذہن کووسعت عطا ء کی اور کہا کہ علم حاصل کرو اہلیاں اسلام کو جہالت کے اندھیرے میں نہیں رکھا بلکہ یہ احساس دلایا کہ ہم خدا کو بھی تبھی جان پائیں گے جب خدا کی ذات اور اس کی صفات کو پڑھیں گے اور پڑھنے کے لیے ہمیں پڑھا لکھا ہونا چایئے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جا بجا فرمایا گیا ہے کہ تم تدبر سے کام،فکر سے کام لو، آسماں کی بلندی کا جائزہ لو، اپنے آس پاس کی چیزوں پر غورو فکر کرو تاکہ تم ان میں ہماری نشانیاں پا سکو۔معلم کائنا ت فخر موجودات ﷺ کی ذات والیٰ صفات کی انفرادیت یہ ہے کہ ہم ان کی ذات کی بات بھی کرتے ہیں اور ان کے صفات کے بات بھی کرتے ہیں ،ہم ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ میرے آقا ﷺ کا چہرہ چودہویں کی رات سے زیادہ تابناک اور چمک دار ہے تو ساتھ ہی ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ میرا آقا میثاق مدینہ کے ذریعہ یہ پیغام دے کر جا رہا ہےکہ اکثریت کے اوپر فرض ہے کہ وہ اقلیت کا تحفظ کرے،ایک طرف ہم یہ کہتے ہیں میرے آقا کے دست اقدس سے پنجاب رحمت رواں ہوتا ہے تو وہیں ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن وہ آفاقی رسول ﷺ عام معافی کا علان کر کے یہ پیغام دے رہا ہے اور انسانی حقوق کا سب سے بڑا درس دے رہا ہے کہ جب صاحب اقتدار ہو تو مظلوم کے اوپر رحمت کرو ان پر رحم کرو ،ایک طرف ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ میرے آقا ﷺ کی محبت جز ایمان ہے تو دوسری طرف ہم یہ بھی کہہ رہے ہیں کہہ وہی نبی برحق ﷺ اپنے خطبہء حجتہ الوداع کے موقعہ پر انسانی حقوق کا سب سے بڑا چارٹر پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ” کسی عربی کو کسیعجمی پر کوئی کوئ افضلیت حاصل نہیں کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئ افضلیت حاصل نہیں ہے،کوئ امیر کسی غریب سے بڑا نہیں ہے اور کسی غریب کسی امیر سے چھوٹا نہیں ہے۔ یہ ذات والا صفات رب اکبر کے اس خلیفہ ء اعظم کی ہے جو قادر کل کا مظہر ذات و صفات ہے،جو گھر میں ہے تو اپنے ازواج کے ساتھ کبھی کھانا بنوا رہا ہے ،کبھی روٹی بنوارہا ہے، کبھی برطن دھو رہا ہے،اور جب یہی محسن انسانیت ﷺ گھر سے باہر ہے تو لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کر رہا ہے، ان کے مال ، ساز و سامان بازار سے گھر پہنچوا رہا ہے،بھوکوں کو کھانا کھلا رہا ہے،ننگو ں کو کپڑے پہنا رہا ہے،یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھ رہاہے۔ میدان جہاد میں ہے تو پیغام دے رہا ہے کہ” مجاہدوں دیکھنا کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ دوران جنگ کسی بچے کو چوٹ لگ جائے،کوئ درخت نا کٹے خیال رکھنا ،کسی ضعیف کو تکلیف نہ ہو۔اور جب بات اس جدید ترین دور میں بڑتے ہوئے سائنسی رجحانات کی آتی ہے تو اس دور میں بھی ہمارے نبی ﷺ کی ذات والیٰ صفات عظیم الشان نظر آتی ہے،آج کا مشہور سائنس داں البرٹ آئنسٹائین تھیوری آف رلیوٹی وٹی دنیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ” جب کسی چیز کی رفتا ر نور کی رفتا ر سے زیادہ ہو جائے تو اس کے مقابلہ میں دنیا کی ساری چیزین رک جاتی ہیں ” یہ فلسفہ آج کا سائنسداں دے رہا ہے لیکن ہمارے نبی ﷺ نے 1400 سال پہلے ہی اس فلسفہ کو معجزہ کی شکل میں دنیا ء انسانیت کے سامنے رکھ کر عقل انسانی کو محو حیرت کر دیا ،میں دعوت مطالعہ دیتا ہوں ایسے فرزندان توحید کو جنہوں نے سیرت طیہ کا مطالعہ نہیں کیا ہے، کہ وہ تاریخ کے صفحات کو پلٹیں اور مصطفیٰ کریم ﷺ کے سفر معراج کا احاطہ کریں تو پایئں گے کہ جب رسول اللہ ﷺ اپنے کاشانہ اقدس سے باہر آئے اور پورا سفر معراج طے کر لیا ، آسمان دنیا کی سیر کر لی جنت و جہنم دیکھ لیا،اور لا مکاں تک جاکر واپس آگئے تو بھی آپ کے کاشانہ اقدس کا وہی حال تھی جو جاتے وقت تھا مطلب یہ کہ بستر گرم تھا گرم رہا ، وضو ع کا پانی بہہ رہا تھا بہتا رہا ،دروازے کی کنڈی ہل رہی تھی ہلتی رہی۔ آج کا سائنس دان یہ فلسفہ دے رہا ہے لیکن ہمارے نبی ﷺ نے اس فلسفہ کا پریٹکل کر کے دنیاکو دکھلا کے چلے گئے لیکن یہ ہماری کم نصیبی ہے کہ ہم نے سیرت طیبہ کا مطالعہ نہیں کیا۔اسی کے ساتھ میڈکل سائنس میں بھی طب نبوی ﷺ کا ایک پورا باب موجود ہے کہ کس طرح سے کھجور اور شہد جیسی چھوٹی چھوٹی چیزیں انسانی اجسام کو عام امراض سے محفوظ رکھتی ہیں۔ بات مسواک کے فوائد کی ہو یا بیٹھ کر پانی پینے کا حکم ہو، استنجا کا طریقہ ہو یا کھانے پینے کے آداب غرض یہ کہ ہر شعبہ زندگی میں تعلیمات رسول ﷺ ہماری تربیت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ بانی اسلام ﷺ نے جب کھانا کھایا تو ہاتھ سے کھایا اس کا سائنسی ادراک یہ ہے کہ ہمارے جسم سے ہر وقت ایک قسم کہ شعایں جاری ہوتی ہیں جو آس پاس کی چیزوں کے ربط میں آتی ہیں، ہمارے دماغ کو اس بات کی اطلاع دیتی ہیں کہ ہمار ے آس پاس کون کون سی چیزیں ہیں ، اسی طرح جب ہم کھانا کھاتے ہیں تو ہمارے ہاتھوں سے نکلنے والی شعایں جب کھانے والی اجزا کے ربط میں آتی ہیں تو دماغ کو میسج پہنچتا ہے اور دماغ ہمارے پیٹ کو تیا ر کرتا ہے اور ہم مخلتف بیماریوں سے بچ جاتے ہیں ۔قاریں کرام ! تحریر کا حاصل یہ ہے بتانے کا مقصد یہ ہے کہ معلم اعظم ﷺ کی ذات ہر جہت سے ہر زاویہ سے عمدہ و اعلیٰ نظر آتی ہے ،دنیا کے تمام اوصاف کا حامل ہمارا یہ نبی برحق تمام شعبہ زندگی میں منفرد اور عظیم نظر آتا ہے، بے مثل و بے مثال نظر آتا ہے ۔ یہ صرف میرا پنا ماننا نہیں ہے بلکہ 1978 میں لکھی جانے کتاب ” The 100 "جس کا کاتب ایک یہودی ہےاور دین موسوی کو ماننے والا ہے جب وہ تاریخ کے صفحات کو پلٹتا ہے اور ایسے افراد کی فہرست مرتب کرتا ہے جنہوں نے اپنے عظیم کارناموں سے دنیاء انسانیت میں نا ختم ہونے والاانقلاب عظیم برپا کیا اور تاریخ میں متاثر کن شخصیت بنے تو اول نمبر پر کسی اور کو نہیں بلکہ معلم اعظم ،پیغمبر انسانیت ﷺ کو رکھتا ہے ۔ یہ صفت ہے ہمارے نبی ﷺ کی جو ہر وصف میں سب سے اعلیٰ اور ممتاز نظر آتے ہیں ۔ایک آخری بات لکھ کر اپنے قلم کو لگا م دینے کی کوشش کروں گاکہ جنگ بدر کا میدان گرم ہے،مسلمانوں نے جنگ جیت لی اور کفار قیدی بن آئے ،جنگ جتنے کے بعد طریقہ یہ ہوتا تھا کہ قیدیوں کو آزاد کرانے کے لیے ان سے فدیہ لیا جاتا تھا ،فدیہ کی شکل رقم تھی، پیسے دو اور اور اپنے لوگوں کو آزاد کر کے لے جاؤ لیکن قربان جایئے پیغمبر اسلام ﷺ کی ذات والیٰ صفات پر پوری دنیا کو آپ نے ” اقرا” کا فلسفہ کچھ یوں سمجھایا کہ جنگ میں آئے غلاموں کو کہا کہ تم میں سے جوپڑھا لکھا ہو وہ ہمارے 10 لوگوں کو پڑھنا لکھنا سکھا دے وہ آزاد ہے ۔قاریئں کرام ذرا اپنا محاسبہ کریں اور خود سے سوال کریں کہ کیا تاریخ انسانی میں کوئ ایسا فلسفی نظر آئے گا جو علم کی اہمیت اس حد تک سمجھتا ہو؟کیا کوئ ایسا معلم ملے گا جو علم کی ترویج اور اشاعت کے لئیے دشمنوں کو آزادی کا پروانہ سنا دے ؟معزز قاریئں کرام ضرورت اس بات کی ہے ہم معلم کائنات ﷺ کے پیغامات اور ان کے ارشادات کو پڑھیں اور دنیا میں علم کی روشنی کو فروغ دیں ۔اگر آج دنیا میں قیامت صغریٰ قائم ہے اور انسانی حقوق کی پامالی ہوتی نظر آرہی ہے تو اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کے ذریعہ جو علم پھیلنا چاہیے تھا وہ علم نہیں پھیل سکا ہے۔(مظہر سبحانی نے یہ مضمون شاہ ولی اللہ ریسرچ فاؤنڈیشن کیلئے لکھا ہے)

Leave a Comment