مصباح ظفر: متعلم شعبہ صحافت و ترسیل عامہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی
1927 کا ناگپور فساد 1920 کی دہائی میں انگریز حکومت والے ہندوستان بھر میں ہوئے فسادات کے سیریز کا ایک حصہ تھا۔فساد 4 ستمبر 1927 کو ہوا تھا- اُس دن مہا لکچھمي کیلئے ایک جلوس تھا, جسے مسلمانوں نے اپنے علاقے محل میں آنے سے روک دیا تھا، دو پہر میں پڑوس کے ہندو گھروں کے پاس فساد ہوا جو دو تین دنوں تک جاری رہا، یہیں سے 1920 کی دہائی میں ہندوستان بھر میں فسادات کی شروعات ہوئی جس میں ملک کے کئی بڑے شہروں میں لگاتار فسادات رُونما ہوئے! 1923 میں گیارہ فسادات ہوئے 1924 میں اٹھارہ اور 1925 میں سولہ فسادات ہوئے تو وہیں 1926 میں ان فسادات کی تعداد بڑھ کر 35 ہوگئی۔ ہندوستان میں فسادات کی شروعات 1923 میں ہوئی جسکے پیچھے ہندو مہاسبھا کا اہم رول رہا! ہندو مہاسبھا کے ارکان نے مسلم محلوں میں مسجدوں کے پاس سے زوردار موسیقی کے ساتھ جلوس نکالا جس کی مسلمانوں کی طرف سے مخالفت ہوئی تو جھڑپ ہوگئی اس کے بعد معاملہ فساد میں بدل گیا۔مسلم محلوں، مسجدوں، مدرسوں اور دیگر مذہبی اداروں کے سامنے سے زوردار نعروں و مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے موسیقی کے ساتھ جلوس نکالنے کے اس طریقے نے دو گروہوں کے بیچ اختلاف پیدا کرنے کی شروعات کرنے کا کام کیا۔چار ستمبر 1927 کی صبح لکچھمی پوجا کے دن ہندو سماج کی طرف سے ایک جلوس نکالا گیا اور ناگپور کے محل علاقے میں ایک مسجد کے سامنے سے گزرا،مسلمانوں نے اس جلوس کو روک دیا تو فساد بھڑک گیا، اس فساد میں آر ایس ایس پوری طرح شامل رہا، سنگھ کارکنان سڑکوں پر اُتر آئے اور ہتھیاروں کے ساتھ اس آگ کو بھڑکانے میں پوری طرح محنت کی، فساد سنگھ پریوار کی طرف سے پوری طرح منصوبہ بند نظر آیا، سنگھ نے اپنے کارکنان کو الگ الگ شاکھاؤں میں بانٹا تھا جو پورے شہر میں پھیلے ہوئے تھے۔واشنگٹن پوسٹ کی 08 ستمبر 1927 کی ایک رپورٹ کے مطابق دو دنوں تک چلے اس فساد میں 22 لوگ مارے گئے اور 100 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے۔اس حادثے کے بعد آر ایس ایس اپنے ہندوتوا نظریے کو ملک بھر کے الگ الگ حصوں میں لے گئی اور رکنیت سازی مہم چلائی۔اپریل 1927 سے لیکر مارچ 1928 تک ملک بھر میں الگ الگ حصوں جیسے بہار،اڑیسہ، پنجاب، ممبئی، بنگال اور دلّی وغیرہ میں ہوئے ان فسادات کی وجہ نبی علیہِ السلام کی شان میں گستاخی اور مساجد کے پاس تیز گانوں کے ساتھ نکالے گائے جلوس ہے جو کہ سنگھ کا منصوبہ بند نفرتی ایجنڈا رہا اور اُن فسادات میں سینکڑوں لوگوں کی جانیں گئی۔اپریل 1928 سے مارچ 1929 تک 22 سیریل فسادات ہوئے جو کہ بمبئی،پنجاب،کھڑگ پور جیسے مقامات پر واقع ہوئے جسمیں 200 سے زیادہ لوگ مارے گئے اسمیں 149 لوگ صرف ممبئی میں مارے گئے۔آزادی سے پہلے ملک الگ الگ حصوں میں کئی فسادات کا گواہ رہا جسکا سلسلہ آزادی کے بعد بھی جاری رہا تو وہیں سنگھ نے کوئی بھی ایسا موقع نہیں گنوایا جہاں وہ اپنا نفرتی ایجنڈا نافذ کر سکتا تھا۔ان فسادات کا مرکز مسلمان ہی رہے جو کہ ہیڈ گوار کے ذریعے شروع ہوئے ایجنڈے کو صاف ظاہر کرتا ہے- جسکا ٹارگٹ مسلمان و اُنکی جائداد رہے! مذہبی فسادات کے بھینٹ چڑھتے ہوئے آرہے اس ملک کے اقلیت نے سرکاری ظلم کو بھی جھیلا۔مارچ 1987 میں اُتر پردیش کے میرٹھ میں ہندو مسلم فساد ہوئے جسمیں 100 سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئی، ٹھیک اسی فساد کے بعد مئی 1987 میں 19 پی اے سی کے لوگوں کے ذریعے 42 مسلمانوں کو شہر کے باہری علاقوں میں گھیر کر گولیوں سے بھون دیا گیا اور سینچائی نہر میں پھینک دیا گیا۔1984 حیدرآباد نسل کُشی، 1969 گجرات فساد، 1970 بھیونڈی فساد، 1980 مرادآباد فساد، 1983 نیللئی نسل کُشی، 1985 گجرات فساد، 1989 بھاگلپور فساد، 1992 ممبئی فساد، 1993 پنگل نسل کُشی،2002 گجرات نسل کُشی،2006 مالیگاؤں بم بلاسٹ، 2013 مظفر نگر نسل کُشی، 2014 آسام فساد اور 2020 نارتھ ایسٹ دلی نسل کشی آزادی کے بعد ہوئے مسلم مخالف نسل کُشی اور فسادات میں سے کچھ نام ہے، ان فسادات میں ایک بات ایک جیسی رہی کی ان سب میں نشانہ مسلمان رہے۔ 1927 میں ہیڈ گوار اور سنگھ کے ذریعے ہندوستان کی سرزمین پر بویا گیا یہ زہر آج ملک کے تقریباً ہر کونے میں اپنی جڑیں جما چُکا ہے۔ جسکا نشانہ مسلمان اور اُنکی جائداد رہی،جنکا مقصد مسلمانوں کو معاشی طور پر کمزور کرنا رہا۔ہیڈ گوار اور سنگھ کی ہندوتوا سیاست بابری مسجد کی شہادت کے بعد ملک کے دیگر علاقوں میں اور تیزی سے پاؤں پسارنے لگی۔مسلم مخالف افواہیں پھیلائی گئی اور مسلمانوں و انکے جائداد اور وراثت کو ملک مخالف نقاب پہنانے کی پوری کوششیں کی گئی ،بابری مسجد کے بعد متھرا اور کاشی اسکی بڑی مثالیں ہے ! فسادات کے اس کڑی میں 2002 گجرات نسل کُشی ہندوستان کیلئے بدنما داغ ہے، جو اس وقت کی موجودہ نریندر مودی کی بھاجپا حکومت اور آر ایس ایس کے لیڈران کے ذریعے بھڑکایا گیا تھا! گجرات نسل کُشی میں 2000 سے زیادہ لوگوں نے اپنی جانیں گنوائی اور 3000 سے زیادہ لوگ بری طرح زخمی ہوئے صرف یہی نہیں بلکہ پراپرٹی کو لوٹا گیا، عصمت دری کے بعد قتل بھی ہوا۔ ان فسادات میں وزیر اعلیٰ نریندر مودی کی سرپرستی میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے لیڈر پوری طرح شامل رہے! تہلکہ جیسے تمام رپورٹ ان دعووں کو مضبوط کرتی ہیں کی سنگھ پریوار،آر ایس ایس،وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کے لوگ اس فساد کے ماسٹر مائنڈ رہے اور انہوں نے مسلم قتل عام کو منصوبہ بند طریقے سے انجام دیا اور بربادی کا جشن منایا۔2013 میں ہوئے مظفر نگر فساد بھاجپا اور سنگھ کی اکسانے والی سیاست کا نتیجہ ہے۔ایک معمولی سے تنازع کو ہوا دیکر قتل عام میں تبدیل کر دینے کا کام بھاجپا لیڈران کے ذریعے کیا گیا۔موجودہ حکومت کی لا پرواہی بھی سامنے آئی جسمیں ہزاروں مسلمان ہجرت کرنے کو مجبور اور ہے گھر ہوئے تو وہیں سینکڑوں نے اپنی جانیں گنوائی۔2020 میں نارتھ ایسٹ دلی میں ہوئے مسلم قتل عام کو بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی لیڈران و کپل مشرا جیسے سینئر بھاجپا لیڈران نے منصوبہ بند طریقے سے انجام دیا۔تمام جاگیروں کو نقصان پہونچایا گیا، 50 سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئی، مسجدوں میں آگ لگائی گئی، اور بھگوا جھنڈے بھی پھہرائے گئے! پولیس انتظامیہ فسادیوں کے آگے سرنڈر نظر آئے، اور کئی معاملوں میں سنگھ کارکنان اور بھاجپا لیڈران کے ساتھ بھی رہےملک کے الگ الگ حصوں میں الگ الگ علاقے سنگھ کے تجربہ گاہ کے طور پر رہے ہیں! کسی بھی شہر، قصبہ اور گاؤں میں آر ایس ایس اپنے نئے نئے منصوبے کے تحت مسلمانوں کی جاگیریں اور عبادت گاہوں کو نشانہ بنا لینے کا ایجنڈا رکھتا ہے۔ جسکے آگے اکثر انتظامیہ سرنڈر نظر آتا ہے اور کئی بار ساتھ بھی ہوتا ہے۔عقیدے کے نام پر نکالے جانے والے جلوس فساد کی وجہ بنتے ہیں! ہیڈ گوار کے شروع کیے اس ہتھکنڈہ کا آج بھی آر ایس ایس و بھاجپا لیڈران کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے! مسجد، مدرسوں اور مسلمان محلوں میں جلوس روک کر زوردار بھڑکاؤ گانوں کے ساتھ نعرے بازی کرنا اب تک عام بات رہی ہے…مسجدوں کے باہر جے شری رام کے نعروں کے ساتھ پتھراؤ اور پھر مسجد کے مینار پر بھگوا جھنڈا پھہرانا کسی بھی رام نومی یا اس طرح کے دوسرے تیوہار کا حصہ بن چکا ہے- ان چیزوں کی مخالفت کرنے پر حالات فساد میں تبدیل ہوتے وقت نہیں لگتا- گھر، پریوار اور جائیداد برباد کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے انتظامیہ کا ظلم، جس نے مسلمانوں سے اپنی جان اور مال بچانے کا بھی حق چھین لینے کی کوشش کی ہے! اور ہندو راشٹر کی ایک اہم کڑی ڈراؤ اور راج کرو کی طرف بڑھ رہا ہے(یہ مضمون مصباح ظفر نے شاہ ولی اللہ ریسرچ فاؤنڈیشن کیلئے لکھا ہے)