انصاف ٹائمس ڈیسک
ہریانہ کے ضلع فرید آباد کے بڑکھل گاؤں میں قائم تقریباً 50 سال پرانی اقصیٰ مسجد کو میونسپل کارپوریشن نے انسدادِ تجاوزات مہم کے تحت منہدم کر دیا۔ افسران کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی سپریم کورٹ کے حکم کی بنیاد پر کی گئی، کیونکہ مبینہ طور پر مسجد "غیر قانونی تعمیر” تھی۔
سپریم کورٹ کا حوالہ، مگر کئی سوالات برقرار
میونسپل کارپوریشن کے افسران نے کہا "یہ مسجد سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی تھی، اور اسے گرانے کا حکم سپریم کورٹ سے آیا تھا۔”
لیکن مقامی لوگوں اور مسلم تنظیموں نے اس دعوے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صرف ایک مذہبی عمارت کو نشانہ بنانے کا عمل ہے۔
ایک مقامی بزرگ محمد سلیم نے کہا "یہ مسجد پچاس سالوں سے یہاں قائم ہے، پانچ وقت کی نماز ہوتی رہی ہے۔ اگر واقعی غیر قانونی تھی، تو اتنے سالوں میں کیوں نہیں روکا گیا؟”
مقامی مسلمانوں میں ناراضگی
مسجد کو گرانے کے بعد مقامی مسلم آبادی میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی "فرقہ وارانہ ذہنیت کا نتیجہ” ہے۔
ایک سماجی کارکن نے سوال اٹھایا:
"جہاں دیگر غیر قانونی تعمیرات پر آنکھ بند کی جاتی ہے، وہاں صرف مساجد ہی کیوں نشانہ بنتی ہیں؟”
سیاسی و سماجی تنظیموں کا ردعمل
ہریانہ جن وکاس منچ نے کہا کہ "یہ مذہبی جذبات سے کھلواڑ ہے۔”
اپوزیشن رہنماؤں نے الزام لگایا کہ "یہ مخصوص مذہبی مقامات کو نشانہ بنانے کی منظم پالیسی ہے۔”
انتظامیہ کی صفائی
میونسپل کارپوریشن نے کہا ہے کہ یہ کارروائی مکمل طور پر قانونی طریقے سے کی گئی اور کسی مذہب کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ "سپریم کورٹ کی ہدایت پر تمام تجاوزات ہٹائے جا رہے ہیں۔”
قانونی چیلنج کی تیاری
مسجد کمیٹی اور وکلا کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ وہ اس معاملے کو دوبارہ عدالت میں چیلنج کریں گے اور اس کارروائی کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھائیں گے۔
اقصیٰ مسجد کی مسماری نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ "کیا ترقی اور قانون کے نام پر صرف مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے؟”
کیا واقعی تمام غیر قانونی تعمیرات کو برابری سے دیکھا گیا؟