پرشانت کشور کی حکمت عملی کا پوسٹ مارٹم رپورٹ اور بنگال انتخاب

Spread the love

محمد رفیع rafimfp@gmail.com (9931011524)

بھارتیہ سیاست کے چانکیہ پرشانت کشور کی پہچان ایک ایسے حکمت عملی تیار کرنے والے کی شکل میں ہوتی ہے جو حکومت بنانے کی مشین تصور کئے جاتے ہیں۔ بنگال میں وہ موجودہ حکمراں جماعت کی حمایت میں حکمت عملی تیار کر اسے کامیابی کا صحرا پہنانے کی فکر میں ہیں۔ مگر آج کل وہ کلب ہاؤس چیٹ لیک کو لیکر کافی چرچا میں ہیں، دراصل ممتا بنرجی کے لئے کام کرتے ہوئے وہ مودی کے نام کے قصیدے پڑھنے لگے ہیں۔ انہوں نے پرانی باتوں کو دوہراتے ہوئے کہا کہ بی جے پی 100 سیٹوں کا عدد عبور نہیں کر پائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر ایسا نہیں ہوگا تو وہ اپنا پیشہ چھوڑ دیں گے۔ اصل بات جو انہوں نے کہہ کر سیاست میں تپش پیدا کر دی ہے وہ یہ ہے کہ ایک کروڑ سے زیادہ ہندی بولنے والے رائے دہندگان اور پسماندہ بی جے پی کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 50-55 فیصدی ہندو مودی کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مودی یہاں مقبول ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اقلیت کا تسٹی کرن (تسکین) بیس سال سے ہو رہا ہے۔ پرشانت کشور کی ان باتوں کو لے کر خوب سیاست ہو رہی ہے۔ بی جے پی اسے اپنے حق میں بھنانا چاہ رہی ہے تو غیر بی جے پی پارٹیاں پرشانت کشور کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہیں کہ وہ ممتا بنرجی کے لئے کام کر رہے ہیں یا بی جے پی کے لئے۔ لیکن پرشانت کشور خوش ہیں اور کنفیڈنٹ ہیں وہ ٹویٹ کرتے ہیں، مجھے خوشی ہے کہ بی جے پی میری چٹ کو اپنے لیڈروں کی باتوں سے زیادہ اہمیت دے رہی ہیں۔ انہیں زیادہ پرجوش ہونے کے بجائے سنجیدگی کے ساتھ میری چٹ کو دیکھنا چاہئے۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا اور پھر دوہرا رہا ہوں کہ مغربی بنگال میں بی جے پی 100 سیٹوں سے زیادہ نہیں جیت پائے گی۔ اے آئی ایم آئی ایم چیف اسدالدین اوویسی اور کانگریس لیڈر رتناکر ترپاٹھی نے پرشانت کشور کے اسٹینڈ کا زبردست مخالفت کیا ہے اور اسے بی جے پی کا ایجنٹ تک قرار دے دیا ہے۔ اوویسی نے کہا ممتا بنرجی اپنی ناکامی چھپانے کے لئے مسلمانوں کو بدنام کر رہی ہے، کانگریس اور ترنامل کانگریس دونوں نے مسلمانوں کو ووٹ بینک کی شکل میں استعمال کیا ہے۔ ان لوگوں نے مسلمانوں کو دودھ دینے والی گائے سمجھ رکھا ہے۔ ممتا بنرجی مسلمان لفظ بولنے سے بھی ڈرتی ہیں۔ انتخابی منشور میں مسلمان لفظ کا انہوں استعمال تک نہیں کیا ہے۔ اب مسلمانوں سے اپیل کر رہی ہیں کہ وہ اپنے ووٹ کو بنٹنے نہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ پرشانت کشور بغیر ڈاٹا کے بد دماغ والی بات کرتے ہیں۔ بحث ہونی چاہئے کہ ممتا بنرجی نے کس طرح ہندتوا کو جڑ جمانے کا موقع دیا۔ لیکن وہ مسلمانوں کو ہی بلی کا بکرا بنا رہی ہیں۔ رتناکر ترپارٹھی نے پرشانت کشور کے مطعلق کہا کہ وہ یقین کے لائق نہیں ہے۔ وہ پیٹھ میں چھوڑا گھونپنے کا کام کرتے ہیں۔ ترپارٹھی کہتے ہیں کہ پرشانت کشور کی رکارڈنگ سنئے وہ ایک بار کہتے ہیں کی ” مودی از پاپولر(Modi is popular)’, پھر جور دیتے ہیں ‘ یس مودی از ویری پاپولر(yes Modi is very popular)’۔ رتناکر ترپارٹھی نے پرشانت کشور کی تاریخ کا ورق پلٹنے کی کوشش کی ہے وہ یاد دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ سب سے پہلے وہ نریندر مودی کے مشاور ہوئے تھے۔ وہ ان ناروں کا بھی ذکر کرتے ہیں جو پی کے نے دئے تھے، ” اب کی بار مودی سرکار ", ” اچھے دن آنے والے ہیں "۔ ترپارٹھی الزام لگاتے ہیں کہ میں پہلے دن سے کہتا ہوں کہ آپ پرشانت کشور سے کیا امید کرتے ہیں۔ پرشانت کشور بھاجپا کے ایجنٹ ہیں، وہ ڈیٹا چور ہیں، پرشانت کشور پارٹیوں میں جاتا ہے۔ ڈیٹا لیتا ہے اور پھر بھاجپا میں بھاگ جاتا ہے۔ بہار کے وزیر اعلیٰ جناب نتیش کمار کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے پرشانت کشور کے بارے میں کہا تھا کہ یہ کسی کے ساتھ نہیں رہ سکتا، یاد کیجئے کہ نتیش کمار نے جب اس کو پارٹی سے نکالا تو کہا کہ امیت شاہ نے دو بار مجھ سے کہا کہ اس کو پارٹی میں رکھ لیجئے۔ میں نے اسے جنرل سیکریٹری بنا دیا، میں نے وزیر بنا دیا۔ لیکن انہوں نے زبان درازی کی اور غلط الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ یہ دوگلا ہے۔ یہ ہمارے ساتھ نیں رہ سکتا۔ یہ کسی کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ حالانکہ وہ افسوس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بات نہ تو امرندر سنگھ سمجھتے ہیں نہ راہل گاندھی سمجھتے ہیں اور نہ ہی ممتا بنرجی سمجھ پاتی ہیں۔

ایک انجینیر پھر سیاسی جانکار سے سیاستدان تک کا سفر بہت لمبا نہیں ہے۔ پرشانت کشور UNESCO کی نوکری سے منسلک تھے اور اس کے بعد افریقہ میں اقوام متحدہ کی نوکری کر رہے تھے جسے چھوڑ کر وہ ہندوستان آگئے اور انہوں نے 2011 میں گجرات میں مودی حکومت کے لئے انتخابی حکمت عملی تیار کی جس کا بڑا فائدہ ہوا۔ سال 2012 میں ہوئے انتخاب میں بی جے پی کو بڑا فائدہ ہوا اور تیسری بار نریندر مودی وزیر اعلیٰ بننے میں کامیاب ہوئے۔ سال 2014 میں بی جے پی پرشانت کشور کے محنت کی وجہ سے بھاری اکثریت سے مرکز میں حکومت سازی میں کامیاب ہوئی۔ انکا نارہ جو نریندر مودی کو وزیراعظم کی کرسی پر لے گئی ” اب کی بار مودی سرکار ” اچھے دن آنے والے ہیں ” اور سب کا ساتھ سب کا وکاس جیسے نارے آج بھی مشہور ہیں۔ 2013 میں انہوں نے ایک میڈیا اور پرچار کمپنی CAG بنایا، چائے پہ چرچا، 3ڈی ریلی اور رن فار یونیٹی جیسے پروگرام کا آغاز کیا۔ مودی کو پرشانت کشور نے میڈیا کا مقابلہ کرنے کے لئے کیسے تیار کیا اس کا خلاصہ 2018 میں پون ورما نے کرن تھاپر کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیا۔ پرشانت کشور نے مشکل سوالوں کا جواب دینے کے لئے ٹرینگ دیتے ہوئے 30 مرتبہ کرن تھاپر کے ساتھ مودی کو اپنا مشہور ٹوٹا ہوا انٹرویو دکھایا تھا۔ مرکز میں مودی حکومت بنانے کے بعد وہ 2015 کے بہار اسمبلی انتخاب میں جدیو کی حکمت عملی تیار کرنے کے لئے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے مشیر بن گئے۔ اسی انتخاب میں راجد سے جد یو کا تعلقات مستحکم ہوا اور بہار میں مہاگٹھبندھن نام سے راجد جد یو اور کانگریس کا ایک انتخابی منچ بنا جس میں مہا گٹھبندھن کو کافی فائدہ ہوا، نیتش کمار کی رہنمائی میں حکومت بنی اور تیجسوی کمار نے نائب وزیر اعلیٰ کی ذمہ داری سنبھالی۔ لیکن 2020 کے انتخاب میں جب نتیش کمار پھر سے NDA کے ساتھ الیکشن میں تھے تو پرشانت کشور مہا گٹھبندھن کے لئے کام کر رہے تھے مگر عین موقعہ پر وہ کہاں روپوش ہو گئے پتا بھی نہیں چلا اور مہا گٹھبندھن حکومت سازی سے محروم ہو گئی۔ حالانکہ اس سے پہلے 2017 میں اتر پردیش اسمبلی انتخاب میں NDA کے خلاف وہ کانگریس کی حکمت عملی تیار کرنے میں مصروف تھے پر نتیجہ صفر ہوا۔ وہیں پنجاب اسمبلی انتخاب میں اسے بڑی کامیابی ملی اسی لئے اگلے سال 2022 میں ہونے والے انتخاب کے لئے امرندرا سنگھ پرشانت کشور کو ذمہ داری سونپ چکے ہیں۔ 2017 کے ہی آندھرا پردیش انتخاب میں وہ وائی ایس جگموہن ریڈی کے مشیر بنے اور انہوں نے ” سمرالا سنورورم، انا پیلو پو اور پرجا سنکلپ یاترا ” جیسے کئی اہم انتخابی مہم تیار کی اور اسے ایکٹیو کیا اور YSRCP کی پہچان کو بدلا۔ YSRCP نے 175 میں سے 151 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔

دراصل پرشانت کشور نے I-PAC (Indian Political Action Committee) نام سے ایک تنظیم بنا رکھی ہے جس کا کام ہے لیڈرشپ، سیاسی حکمت عملی، میسیج کمپین کا برانڈنگ کرنا وغیرہ ۔ اسی تنظیم کے ذریعہ پی کے نے ہندوستان کی سیاست میں ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی اور یہی وجہ ہے کہ پی کے کا ہندوستان کی سیاست میں زبردست ڈمانڈ ہے۔ پرشانت کشور کی حکمت عملی اور اس کے ڈمانڈ کا جائزہ لینے سے بات سمجھ میں آتی ہے کہ ہندوستان میں پی کے ایسا برانڈ ہے جس کی ضرورت سبھی سیاسی جماعت کو ہے۔ گجرات سے دلی ہوتے ہوئے بہار، پنجاب اور آندھرا پردیش میں انہوں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں اور اب بنگال کی باری ہے۔ حالاںکہ 2017 کے اتر پردیش اور 2020 کے بہار الیکشن نے پرشانت کشور کے خلاف شک کی فضا بنا ئی تھی وہ بنگال میں رنگ دکھا رہی ہے۔ کلب ہاؤس چیٹ لیک کو لیکر بنگال میں سب کی انگلیاں پی کے کی طرف اٹھ رہی ہیں۔ اس کا راستہ نیتش کمار نے یہ کہہ کر ہموار کیا تھا کہ امییت شاہ کے کہنے پر ہی پرشانت کشور کو انہوں نے رکھا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقت میں وہ امیت شاہ کا آدمی ہے۔ نتیش کمار کی ایک اور بات یاد کرنے کی ہے، انہوں نے جب پی کے کو نکالا تو کہا تھا کہ یہ کہیں نہیں رہ سکتا۔ اور یہ شک تب اور گہرا ہو جاتا ہے جب ہم بہار اسمبلی 2020 کے انتخاب کا جائزہ لیتے ہیں۔ نتیش کمار نے جب انہیں پارٹی سے نکالا تو پہلے پی کے کو یقین نہیں ہوا پھر اس نے بدلہ لینے کے لئے مہا گٹھبندھن کے لئے کام کرنا شروع کیا مگر انتخاب کا جب بگل بجا تو عین موقع پر وہ میدان سے غائب ہو گئے۔ اتر پردیش میں بی جے پی مخالف فرنٹ بنانے میں بھی وہ ناکام رہے اور شروعاتی دور میں یہی ناکامی بنگال میں بھی دکھی نتیجتاً وام اور کانگریس ترنامل کانگریس سے الگ انتخابی میدان میں ہیں جس کا کچھ تو اثر ہوگا۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں کہ ممتا بنرجی فاتح ہوتی ہیں تو اس کا کریڈٹ خود ممتا کو، اسکی پارٹی اور عوام کو جائیگا اور ممتا کے خلاف نتیجہ آنے کے جوابدہ پرشانت کشور ہونگے۔

Leave a Comment