موجود حالات میں واقعہ معراج کا پیغام۔

Spread the love

امام علی مقصود فلاحی۔متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور آپ کی حیات بابرکت میں آنے والے تمام واقعات میں اللہ نے انسانوں کے لئے بے شمار نصیحت و عبرت رکھا ہے۔سیرتِ رسول کا کوئی چھوٹا بڑا واقعہ ایسا نہیں ہے جس میں رہتی دنیا تک کے لئے اور خاص طور سے مسلمانوں کے لیے کوئی پیغام نہ ملتا ہو۔چنانچہ آپ کی زندگی میں بے شمار واقعات رونما ہوئے ہیں جس میں سے ایک واقعہ نہایت حیرت انگیز ہے جسے ہم‌ اور آپ واقعہ معراج سے جانتے ہیں۔قارئین!معراج النبی کا واقعہ انسانی عظمت اور سربلندی کا نقطہ عروج ہے، یہ واقعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا وہ منفرد ترین واقعہ ہے جسے عقل سے نہیں ایمان اور عشق کی طاقت سے سمجھا جا سکتا ہے۔اس لئے کہ عقل کی پرواز ہمیشہ سے ہی محدود رہی ہے۔انسان نے جب بھی معجزات کو محض عقل سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اس نے ہمیشہ ہی ٹھوکر کھائی ہے، اسراء و معراج کے پورے واقعے پرمادیت ’’عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی‘‘ کی کیفیت سے دوچار ہے لیکن ایمان و عشق والے اسے ہمیشہ سے سچ ہی سمجھتے آئے ہیں اورتا قیامت اس کی صداقت میں اضافہ ہی ہوتا جائے گا۔ معراج کا واقعہ یہ سبق دیتا ہے کہ آسمان کی بلندیاں اور وسعتیں حضرتِ انسان کی دسترس میں ہیں۔یہ واقعہ مستقبل کے با رے میں اللہ تعالیٰ کے منصوبوں اور اسلام کی ترویج و اشاعت کا غماز بھی ہے، روایات کے مطابق معراج کا واقعہ مکی زندگی کے بالکل اواخر میں پیش آیا۔ اور یہ وہ مرحلہ تھا کہ جب مکہ ظلم کی ایک ایسی وادی بن چکا تھا جہاں پر مسلمانوں کیلئے مزید رہنا انتہائی دشوار ہو رہا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مادی سہارے حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ یکے بعد دیگرے انتقال فرما چکے تھے۔ پھر کیا تھا جیسے کفارِ مکہ نے یہ طے کر لیا ہو کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ ایمان کو ایسی پرتشدد زندگی سے گزاریں گے کہ ان کی طاقت ختم اور ان کی برپا کردہ اسلامی تحریک بے جان ہو جا ئے گی یہی وجہ تھی کہ آپ کے اوپر کفار مکہ نے آلام و مصائب کے پہاڑ توڑے جارہے تھے۔ مکے والوں سے مایوس ہو کر جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کچھ امیدوں کی کرنیں لیکر طائف گئے، اور وہاں سے کچھ مدد کی درخواست کی تو وہاں کے باشندوں نے بدسلوکی، بربریت اور ظلم کی وہ داستان رقم کی کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا۔ یہ وہ پس منظر تھا جس میں واقعہ معراج پیش آیا جو اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ اے محمد صلی االلہ علیہ وسلم گھبرانے کی کو ئی ضرورت نہیں۔ اگر وقتی طور پر فرش والے آپ کے ساتھ نہیں ہیں تو کوئی با ت نہیں، عرش والا تو ہر حال میں آپ کے ساتھ ہے۔ اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کفارِ مکہ اور سردارانِ طائف کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی بے پناہ قوت حضرت محمد صلی اللہ علیہ اور ان کی برپا کردہ تحریک کے ساتھ ہے۔ ارے وہ اللہ جو انہیں ایک رات میں مکۃ المکرمہ سے بیت المقدس اوربیت المقدس سے عرش تک لے جاسکتا ہے اس کی طاقت کے سامنے تمہاری طاقت ایک رائی کے دانے کے برابر بھی حیثیت نہیں رکھتی۔ وہ جلد ہی تمہاری طاقت کا طلسم توڑ کر اپنے پیارے نبیؐ کو سرخرو اور فاتح کر دے گا۔قارئین!ایسی بھی کوئی شام نہیں جس کی سحر نہ ہو، اور ایسا بھی کوئی ظلم نہیں جو کبھی ختم نہ ہو، عداوت و دشمنی کی بھی حد ہوتی ہے، مکر و فریب بھی ایک انتہاء کو جا کر دم توڑے دیتا ہیں، ناکامی کے منصوبے بنانے والوں کے منصوبے بھی خدائے حکیم کے سامنے چل نہیں سکتے، بدخواہی کے خواب دیکھنے والے اور برائی کی سازشیں کرنے والے بھی بوکھلاہٹ کے شکار ہوجاتے ہیں۔چنانچہ اسلام کے چراغ کو بجھانے اور پیغمبر اسلام کے راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے والے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اب اسلام کی محنت اور اعلاء کلمۃ اللہ کی جد و جہد ختم ہو جائے گی، مصائب و آلام کے حوصلہ شکن حالات نبی کریم صلی اللہ علیہ اور آپ کے جانثار صحابہ کے عزائم کو پست اور انکی کوششوں کو روک دے گی۔لیکن انہی ظاہری ناکامیوں سے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کی فتح مندی کا فیصلہ فرمایا۔قارئین! اس وقت مسلمان دنیا کے چپے چپے میں ظلم و بربریت کے شکار ہیں، عداوت و دشمنی کے تاریک ماحول میں پھنسے ہوئے ہیں، جان و مال اور دنیوی وسائل تمام دشمنوں کے قبضے میں ہیں، تذلیل و تحقیر کے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں،فلسطین کے معصوم بچے ظلم کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں، ملک شام میں ہنستے چہکتے گھر قبرستان بنے ہیں، لاکھوں مسلمان قتل و خون کے سفاکانہ کھیل میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ہندوستانی مسلمان بھی نت نئے فتنوں کا سامنا کر رہے ہیں، این آر سی، اور این پی آر جیسے کالے قانون سے حیران و ششدر ہیں۔ لیکن واقعہ معراج ان جاں گسل حالات میں اور ان حوصلہ شکن ماحول میں بھی امید و یقین کا پیغام دے رہا ہے، عروج و سربلندی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔کیونکہ جب ایمان والے دین حق پر جمے رہیں گے اور حالات کا مقابلہ کرتے رہیں گے، تو پھر وہی خدائی‌ قدرت تمہیں پستیوں سے نکال کر بلندیوں پر پہنچا دے گی، تمہارے تذلیل و تحقیر پر عزت و وقار کا تاج رکھ دے گی۔بقول فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب : معراج کا واقعہ مسلمانوں کے لئے دلداری و طمانیت کا سامان ہے، اس لئے مسلمان مصیبت اور مایوس کن ‌حالات سے حوصلہ نہ ہاریں، آپ فرماتے ہیں ایمان و یقین اور استقامت کے ساتھ دین متین پر قائم رہیں، اور شریعت و سنت کی تعلیمات پر دل و جان سے عمل کرتے رہیں‌ تو انشاءاللہ ضرور بالضرور عروج و سربلندی آپ کو اپنے آغوش میں لے لیگی۔

Leave a Comment