دکن کی مشہورخاتون ماہ لقاء بائی چندہ (پیدائش 20/ذی قعدہ 1181ھ ۔4/ اپریل 1768ء وفات 19/محرم 1207ھ۔ ستمبر 1792ء) کا شمارآصف جاہی دور سلطنت میں بااثر خواتین میں ہوتا تھا۔ سنہ 1802 میں حیدرآباد کے دوسرے آصف جاہی سلطان میر نظام علی خان کے دربار میں فارس کے نئے برس کی تقریب کے دوران فوجیوں اور درباریوں کو تحائف، القاب اور گرانٹ کے ساتھ اعزاز سے نوازنے کے لئے ایک خاص پروگرام منعقد کیا گیا۔ جس میں متعدد مردوں کے علاوہ ایک 34 سالہ خاتون چندہ بی بی المخاطب ماہ لقاء بائی کو ان کی نمایاں خصوصیات اور صلاحیتوں کی بنا پر ماہ لقاء‘ کے شاہی خطاب سے نواز کیا گیا۔ ماہ لقاء بائی دکن کی سب سے زیادہ بااثر خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین شاعرہ، سیاسی مشیر، کامیاب سپاہی، گھوڑ سوار اور تعلیم نسواں کی علم بردار تھی۔
ماہ لقا ء کی پیدائش کے بعد ان کے والد نے انھیں بے گھردیا تھا، اسی دوران میر نظام علی خان آصف جاہ دوم کے وزیراعظم میر موسی خان شہید المعروف رکن الدولہ نے ان کی پرورش کی۔ ماہ لقاء نے فن موسیقی و رقص اکبراعظم کے دربار کے مشہور موسیقار تان سین کے پوترے خوش حال خان سے سیکھا اور ان میں انتہا درجہ کی مہارت حاصل کی۔ خوش حال خاں کے بارے میں ماہ لقا ء کے سوانح نگار راحت عزمی نے اپنی تحقیقی کتاب ”ماہِ لقا – حالاتِ زندگی مع دیوان“ (سن اشاعت: دسمبر-1998ء) میں لکھا ہے کہ ’یہ وہی خوش حال خان ہیں، جنہوں نے حیدرآباد کے کوہ مولا علی پر کمان، مقبرہ، عاشور خانہ اور آبدار خانہ بنوایا تھا۔ ماہ لقاء کو دھرپد، خیال اور ٹپہ میں بڑا کمال حاصل تھا جس میں اس نے کئی اضافے بھی کیے تھے‘۔
آصف جاہی دور سلطنت میں ماہ لقاء کو امرائے عظام کا اعزاز حاصل تھا۔ وہ شاہی دربار میں رقص و سرود کی محفلوں میں سب کا دل جیت لیا کرتی۔ ماہ لقاء کا جب بھی تذکرہ کیا جاتا ہے تو اکثر ”طوائف“ کے لفظ کے ساتھ ان کا نام چوڑا جاتا ہے۔ اس ضمن میں موصوفہ کے سوانح نگار راحت بزمی نے لکھا ہے کہ ”ماہ لقا ء کی شہرت امرا اور دربار آصفی تک پہنچ چکی تھی۔ دوسری طرف چندا اور اس کا خاندان ناسازگار حالات کا شکار ہو چلا تھا۔ ماہ لقاء نے چار و ناچار شاہی دربار اور امرا کی مہذب محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنا شروع کیا۔ اس طرح داد اور دولت حاصل کی۔ اس زمانے میں خواتین کا گانا بجانا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چندا کے ساتھ طوائف کا تمغہ لگ گیا حالانکہ وہ شوقین اور باکمال فنکار تھی نہ کہ کسبی اور پیشہ ور“۔ ماہِ لقا – حالاتِ زندگی مع دیوان“ (سن اشاعت: دسمبر-1998ء) ماہ لقاء بائی کو شاہی دربار کی جانب سے حفاظتی دستے کے طور پر کئی باڈی گارڈس فراہم کیے گئے تھے۔ ان کی والدہ کانام راج کنور بائی تھا۔ راج کنور بائی کے شوہر آصف جاہی دور سلطنت میں خاصی اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ شہنشاہ محمد شاہ کے دور میں ان کے نانا احمد آباد میں مغلیہ دور میں ایک بہترین منتظم تھے۔
ماہ لقاء بائی چندہ کو اردو شاعری میں پہلی خاتون صاحبِ دیوان شاعرہ کا اعزار حاصل ہے۔ ماہ لقاء کی وفات کے بعد ’گلزارِ مہ لقاء‘ کے عنوان سے ان کا دیوان شائع کیا گیا۔ ان کی شاعری میں محبت اور وفاداری کے کئی موضوعات شامل ہیں۔سید حسن علی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ’ماہ لقا ء بائی چندا اپنے عہد کی ایک اچھی شاعرہ تھی۔ اس کی شاعری کے استاد نواب میر ابوالقاسم موسوی المخاطب بہ میر عالم تھے۔ چندا بی بی غزل کی شاعرہ تھی۔اس کی غزل پانچ مصرعوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ ہر غزل کے آخری مصرعہ میں حضرت سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہ کی مداح سرائی کرتی تھی اور ان سے استعنات طلب کرتی تھی۔ اسے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم و اہل بیت اطہار سے والہانہ محبت ومودت تھی‘۔ (روزنامہ سیاست۔ حیدرآباد29/مئی 2015)۔ ان کی شاعری کے ضمن میں ڈاکٹر راحت سلطانہ نے اپنے ایک مضمون ماہ لقا ء بائی چندا: اردو کی پہلی نسائی آواز میں لکھا ہے کہ ”ماہ لقا ء بائی چندا صنف غزل کی رسیا تھی۔ اس کے دیوان میں غزل کے علاوہ کوئی اور صنف نہیں ملتی۔ ہر غزل میں اس نے پانچ شعر کا التزام روا رکھا ہے اس کی وجہ غالباً پنج تن سے عقیدت ہے۔ اس کے دیوان میں جملہ 125 غزلیں ہیں۔ چندا کا کلام اس کے مشاہدات، تجرباتِ زندگی اور قلمی واردات کی ترجمانی کرتا ہے۔ سادگی بیان، لطافت زبان اور نغمگی و موسیقیت اس کے کلام کی نمایاں خصوصیات ہیں“۔ چند شعر ملاحظہ ہوں:عالم تری نگہ سے ہے سرشار دیکھنامیری طرف بھی ٹک تو بھلا یار دیکھناخورشید رو قسم ہے یہ زلفوں کی تونے کلوعدہ کیا تھا دن کا مگر رات ہوگئیہماری چشم نے ایسا کمال پایا ہےجدھر کو دیکھئے آتا ہے تو نظر ہم کو چندا نے اپنے تجربات زندگی اور مشاہدات کو نسوانی زبان میں بڑے سلیقے سے پیش کیا ہے۔ درجِ ذیل اشعار کی نسائیت اور داخلی رنگ قابل داد ہے:جو پوچھے ہجر کی حالت مری وہ بے وفا ہنس کرتصدق ہوکے کہہ باآہِ سرد و چشم تر قاصدسوجان سے ہوگی وہ تصدق مرے مولاچندا کی جوکونین میں امداد کرو گےمری نازک مزاجی کی خبر رکھتا نہیں ہرگزوہ سنگیں دل نہیں ممکن کسی کا ہوکبھی عاشقسرفرو ہرگز نہ ہوچندا کسی سے دہر میںیہ جناب مرتضیٰ کی ہے کنیزی کا غرورشاہ و گدا تو دنگ ہوے رقص پر ترےعاشق ہے نیم جان‘ نئی لئے میں تان بھرحسن کے شعلے سے تیرے جب کہ ٹپکے ہے عرقشرم سے بس ابر کے دامن میں ہے تر آفتاب(ماہنامہ سب رس،حیدرآباد۔ ستمبر۔2012) میر نظام علی خان آصف جاہ دوم جب بھی سفر کرتے ماہ لقاء کو بھی اپنے قافلہ میں خصوصیت کے ساتھ شریک سفر کرتے تھے۔ اس دور میں ماہ لقاء کا ایک گھر ’حسہ رنگ محل‘ نامپلی میں بھی تھا، جہاں آج لڑکیوں کا کالج واقع ہے۔ انھیں ایڈیک منٹ کی جائیدادیں شاہی دربار کی طرف سے عطا کی گئی تھی۔ جس جگہ پر آج ایشیا کی عظیم و شان علمی دانش گاہ عثمانیہ یونیورسٹی قائم ہے، یہ سب جائیداد ماہ لقاء کی تھی۔موجودہ انگلش اینڈ فارن لینجویجس یونیورسٹی(EFLU) کے کیمپس میں ماہ لقاء کے نام سے ایک باؤلی بھی واقع ہے۔ اس کے علاوہ ماہ لقاء بائی کے نام سے یونیورسٹی کیمپس میں ایک وسیع و عریض ہاسٹل بھی ہے۔ماہ لقا ء بائی کی آخری آرام گاہ کوہِ مولا علی کے دامن میں اپنی والدہ راج کنوار بائی کی قبر کے قریب واقع ہے۔ ان کی مزار نہایت ہی خوب صورت، نقش و نگار سے مزین اور نفیس تعمیری شاہکار کا اعلی نمونہ ہے۔ چند دن قبل حیدرآباد کے مشہور ادارہ دکن آرکائیو deccanarchive نے دکن کی اس بااثر خاتون سے متعلق ’ہیریٹیج واک‘کا اہتمام کیا تھا۔ جس میں شہر کے تعلیم یافتہ نوجوانوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ یہ ایک خوش گوار بات ہے کہ اس ہیریٹیج واک میں برادران وطن کی اکثریت تھی۔ جنھیں حیدرآباد کی گنگا جمنی تہذیب، تاریخ و ثقافت اور شعر و شاعری سے بہت لگاؤ ہے۔ دکن آرکائیو کے ذمہ دار اعلی اور نوجوان مورخ جناب صبغت خان Sibghat اور ان کی ٹیم بڑے ہی خوش اسلوبی سے دکن کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت سے متعلق بے مثال خدمات انجام دے رہی ہے۔ دکن آرکائیو کی جانب سے منعقدہ’ہیریٹیج واک‘ کے دوران انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج (INTACH) حیدرآباد INTACH Hyderabad چیاپٹر کی کنوینر محترمہ انورادھا ریڈی نے اپنی گفتگو کے دوران کئی تاریخی حقائق سے واقف کروایا۔ دکن آرکائیو حیدرآباد کے چند متحرک نوجوانوں کا ایسا گروپ ہے، جس کا مقصد دکن سے متعلق تاریخی حقائق کو عام کرنا ہے۔ اس کے ذریعے دکن کی درست معلومات اور تاریخی واقعات سے واقف کرایا جاتا ہے اور اسے عام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ گروپ دکن کے متنوع تاریخی ورثے کو ڈیجیٹل طور پر محفوظ رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اس کے علاوہ نایاب مخطوطات، پرانی تصاویر اور آرکائیو کو اس کے ذریعے محفوظ کیا جارہا ہے۔ سماجی رابطہ کے مختلف ذرائع فیس بک، انسٹاگرام کے علاوہ ویب سائٹ https://thedeccanarchive.in/ پر دکن آرکائیو سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔#MahLaqaBaiChanda